the etemaad urdu daily news
آیت شریف حدیث شریف وقت نماز

ای پیپر

انگلش ویکلی

To Advertise Here
Please Contact
editor@etemaaddaily.com

اوپینین پول

کونسی کرکٹ ٹیم آئی پی ایل 2024 جیتے گی؟

کولکتہ نائٹ رائیڈرز
راجستھان رائلز
سن رائزرز حیدرآباد
انتظامیہ سے مسلمانوں کا مکمل صفایا۔ اردو یونیورسٹی میں ممتاز قانون داں کا لکچر
حیدرآباد، 21 ؍جنوری(پریس نوٹ) سقوط حیدرآباد کے آثار تو بہت پہلے سے نمایاں ہوچکے تھے تاہم انڈین یونین میں حیدرآبادکے انضمام کے لیے جس بربریت کا مظاہرہ کیا گیا اُس سے گریز ممکن تھا۔ ممتاز ماہرِ قانون ‘ مورخ و مصنف جناب اے جی نورانی نے 1948 کے رسوائے زمانہ پولیس ایکشن پر ختم ہونے والے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے آج ان خیالات کا اظہار کیا۔ وہ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے ایچ کے شیروانی مرکز برائے مطالعات دکن کے زیر اہتمام ’’1947-1948 میں دہلی اور حیدرآباد کے درمیان تعلقات‘‘ کے موضوع پر لکچر دے رہے تھے۔ ڈاکٹر محمد اسلم پرویز، وائس چانسلر نے صدارت کی۔ سابق ریاست حیدرآباد سے وابستہ متعدد شعراء ‘ ادیبوں اور اعلیٰ عہدیداروں کا حوالہ دیتے ہوئے جناب نورانی نے کہا کہ نظام نے متحدہ صوبوں (موجودہ اترپردیش) اور برار سے بہترین صلاحیتوں کے حامل افراد کی خدمات حاصل کی تھیں جس کے نتیجے میں حیدرآباد کا مسلم ؍اسلامی کلچر وجود میں آیا۔نواب میر عثمان علی خان نہایت فراخ دل ہونے کے ساتھ ساتھ جدید ترقی پر بھی مائل تھے۔ تاہم نام نہاد پولیس ایکشن کے بعد مسلمانوں کے حوصلے بری طرح پست ہوگئے ۔ مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا اور سرکاری انتظامیہ سے مسلمانوں کا مکمل طور پر صفایا کردیا گیا۔ جناب نورانی کے مطابق پولیس ایکشن کے بعد نظام کے تئیں آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کا رویہ ہمدردانہ تھا۔ وہ اپنے خطوط میں میر عثمان علی خان کو ’’میرے



دوست‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ تاہم نہرو کے اندر موجود ’’قوم پرستی‘‘ نے پولیس ایکشن کے دوران اور مابعد حیدرآباد میں مسلمانوں کے خلاف پیش آئے تشدد کی تحقیقات کی اجازت ریڈ کراس کو دینے سے انہیں روک دیا تھا۔ ممتاز قانون داں نے ہندوستان کی تقسیم کے بعد مختلف ریاستوں میں حکمراں اور اکثریتی رعایا کے مذہب میں فرق کی صورت میں استصواب کروانے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی تجویز قبول نہ کرنے پر محمد علی جناح کو مورد الزام ٹہرایا۔ اُن کے مطابق جناح اس منصوبے سے حیدرآباد کو باہر رکھنا چاہتے تھے۔ ڈاکٹر محمد اسلم پرویز ‘ وائس چانسلر نے اپنے صدارتی ریمارکس میں ممتاز قانون داں اور مورخ جناب اے جی نورانی کے لکچر کو نہایت معلومات افریں قرار دیتے ہوئے کہا کہ حیدرآباد کی گنگا جمنی تہذیب کی انفرادیت آج بھی برقرار ہے۔ انھوں نے ایک اہم موضوع پرپر مغز لکچر دینے پر مہمان مقرر کا شکریہ ادا کیا۔ ابتداء میں پروفیسر سلمیٰ احمد فاروقی ‘ ڈائرکٹر ایچ کے شیروانی مرکز برائے مطالعات دکن نے مرکز کی سرگرمیوں کا مختصر تعارف پیش کرتے ہوئے بتایا کہ 2012 میں اپنے قیام کے بعد سے مرکز نے متعدد تحقیقی اور تعلیمی سرگرمیوں کی تکمیل کی ہے۔ مرکز نے دو بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ اشتراک کیا ہے اور ہر سال ایک بڑے پراجیکٹ پر کام کیاجارہا ہے۔ اس موقع پر مرکز کی تازہ تحقیقاتی تصنیف ’’Trading Network of the Deccan‘‘ (دکن کا تجارتی نیٹ ورک) کی رسم اجراء بھی عمل میں آئی۔ جناب میر ایوب علی خان‘ میڈیا کوآرڈینیٹر نے کارروائی چلائی۔ پروگرام کے اختتام پر مہمان مقرر نے حاضرین کے سوالات کے جواب دیئے۔ اس موقع پر اساتذہ‘ عہدیداروں ‘ ریسرچ اسکالرس کے علاوہ شہر سے تشریف لانے والے معززین کی کثیر تعداد موجود تھی۔
اس پوسٹ کے لئے کوئی تبصرہ نہیں ہے.
تبصرہ کیجئے
نام:
ای میل:
تبصرہ:
بتایا گیا کوڈ داخل کرے:


Can't read the image? click here to refresh
http://st-josephs.in/
https://www.owaisihospital.com/
https://www.darussalambank.com

موسم کا حال

حیدرآباد

etemaad rishtey - a muslim matrimony
© 2024 Etemaad Urdu Daily, All Rights Reserved.